| یہ راہِ اہلِ عشق نہایت مہیب ہے |
| میں کیسے آ گیا سرِ منزل ، عجیب ہے |
| موجود وہ کلی ہے نہ ہی گل ہے آس پاس |
| جانے کہاں سے آ رہی بوئے حبیب ہے |
| دیتا ہو مشورے جو محبت کے وعظ میں |
| بولو کسی محلے میں ایسا خطیب ہے |
| صیاد اس پرندے پہ ہیں سب فریفتہ |
| یہ کون جانتا ہے وہ کس کا نصیب ہے |
| جس کو نہیں ذرا بھی مسیحائی سے غرض |
| زخمِ جگر کو ایسا میسر طبیب ہے |
| دیکھا تو یہ کھلا کہ ہے وہ شوخ نغمہ خواں |
| آواز سے لگا تھا مجھے عندلیب ہے |
| جادو کوئی ضرور ہے اس ماہ رخ کے پاس |
| باوصف دور ہونے کے لگتی قریب ہے |
| مضمونِ کائنات الگ باندھ کر دکھا |
| معلوم ہو کہ تُو بھی ہنر مند ادیب ہے |
| کوئی نہیں جسے تری قربت نہیں پسند |
| سارا زمانہ یعنی قمرؔ کا رقیب ہے |
معلومات