زندگانی کے ہر باب میں آنکھ ہے
آنکھ میں خواب ہے ، خواب میں آنکھ ہے
جسم اپنا ہے دو کشتیوں میں سوار
سندھ میں دل ہے پنجاب میں آنکھ ہے
چاند کو بھی وہ تکتے نہیں بے حجاب
ان کو لگتا ہے مہتاب میں آنکھ ہے
غوطہ زن ہوں میں آنکھوں کے تالاب میں
ڈھونڈتا ہوں جو تالاب میں آنکھ ہے
آنکھ ہے ہر مسرت کا اول سبب
ہر اداسی کے اسباب میں آنکھ ہے

0
91