جسم جب تیر سے کمان ہوا
ہر تعلق بلائے جان ہوا
بے رخی نے جنم دیا ہے درد
ہجر کی گود میں جوان ہوا
میں بھی غمگین ہوں مگر جتنا
بعد تیرے مرا مکان ہوا
کس پہ برسی وصال کی بارش
آسماں کس پہ مہربان ہوا
اک نظر تیرے دیکھ لینے سے
دل مرا کشتِ زعفران ہوا
سانس لینا بھی ہے سزا جیسا
جسم پر درد حکمران ہوا
اشک جب قیدِ ضبط سے نکلا
حالتِ دل کا ترجمان ہوا
ایک گل سے مہک تری آئی
اک کلی پر ترا گمان ہوا
روح اور جسم کی لڑائی تھی
عشق ڈوبا کہ درمیان ہوا
فکر کیا ہے فراق میں سر پر
چھت ہوئی یا کہ آسمان ہوا
مختصر قصۂِ وفا آسی
جب سنایا تو داستان ہوا

0
48