حسن کے در پر کوئی حاجب نہیں
پھر بھی کوئی دید کا طالب نہیں
کب کھُلی پٹی ہوس کی آنکھ سے
جسم کہتا رہ گیا! صاحب! نہیں
حضرتِ انسان کے اعمال دیکھ
کیا یہی شیطان کے نائب نہیں؟
کیا ارادے ہیں جنابِ حُسن کے
عشق والے تو ہوئے تائب نہیں
اس لیے ہم پر ہے لازم احتیاط
ہم ابھی یک جان دو قالب نہیں
کیجیے کچھ التماسِ دل پہ غور
جانتا ہوں مشورہ صائب نہیں
یاد رکھنا بھی روا ہے ہجر میں
بھول جانا فرض یا واجب نہیں
لمس کے دریا میں کرتے غسل روز
دوش پر ہوتے اگر کاتب نہیں
آ بھی سکتا ہے قمرؔ دن میں نظر
یہ گماں تو ہے مگر غالب نہیں

0
117