| موسم کی یہ سازش مجھ کو سوچی سمجھی لگتی ہے |
| بارش کی ہر بوند کسی کے لمس کو ترسی لگتی ہے |
| منظر میری آنکھ سے دیکھو آنے والے لمحوں کا |
| میرے خواب کی چھت سے دیکھو دنیا کیسی لگتی ہے |
| جانتے بوجھتے پوچھتی ہے مفہوم وہ میرے شعروں کا |
| سیدھی سادھی بات بھی اس کو ایک پہیلی لگتی ہے |
| نیلا ، جامنی ، کاسنی ہو یا سرخ و سفید و سیاہ و سبز |
| جو بھی رنگ پہن لے وہ لڑکی شہزادی لگتی ہے |
| جی کرتا ہے آگ میں جھونکوں سارے مغربی پیراہن |
| اتنی مجھ کو تُو دیسی ساڑھی میں اچھی لگتی ہے |
| جب کوئی آوارہ جھونکا چھیڑتا ہے رخساروں کو |
| فرطِ حیا سے اور بھی اس کی رنگت پیازی لگتی ہے |
| حور نہیں ہے جنت کی انسان بظاہر ہے لیکن |
| انگڑائی جب لیتی ہے تو حسن کی دیوی لگتی ہے |
| دل کیسے مغلوب نہ ہو کجراری آنکھوں والی سے |
| ترچھی نظر کی میرے دل پر سیدھی برچھی لگتی ہے |
| مجھ کو عرضِ حال سے اس کا روکنا بنتا ہے آسیؔ |
| سچ کہنے والے لوگوں پر ہی پابندی لگتی ہے |
معلومات