سب گلے شکوے برابر ہو گئے
اور ان کے لب میسر ہو گئے
دیکھ کر میری نگاہِ شوق وہ
شرم کے مارے ٹماٹر ہو گئے
راہ چلتے ہم سے وہ ٹکڑا گئے
جسم و جاں یوں کیف آور ہو گئے
آ رہے ہیں وہ عیادت کے لیے
سنتے ہی بیمار بہتر ہو گئے
بے تحاشا مسکرائے آج وہ
کس قدر احسان ہم پر ہو گئے
سرخیِ لب ہائے یارِ من کو دیکھ
جان و دل سے گل نچھاور ہو گئے
پھر چلی آئی کسی اپنے کی یاد
دشت آنکھوں کے سمندر ہو گئے
راس آئی دل کو فرقت کی فضا
ہجر کے پودے تناور ہو گئے

0
86