| ہمیشہ عہدِ وفا نبھائیں گے ، چوم لیں گے |
| خفا ہوا تو اسے منائیں گے ، چوم لیں گے |
| انہوں نے رسمی سلام پر اکتفا کیا ہے |
| ہمیں لگا تھا گلے لگائیں گے ، چوم لیں گے |
| گلاب تو پھر گلاب ہے اس گلی کے کانٹے |
| بھی اپنی آنکھوں میں ہم بسائیں گے چوم لیں گے |
| ہمارے خط سے خفا رہیں گے وہ چند لمحے |
| وہ چند لمحوں میں مسکرائیں گے ، چوم لیں گے |
| تمہاری تصویر کے سہارے کٹیں گے دن رات |
| کبھی ہنسائیں ، کبھی رلائیں گے ، چوم لیں گے |
| اس آرزو نے حیات کے دن بڑھا دیے ہیں |
| کہ ایک دن وہ پلٹ کے آئیں گے ، چوم لیں گے |
| بس اس وجہ سے قریب جاتے نہیں قمرؔ ہم |
| اگر ہم ان کے قریب جائیں گے ، چوم لیں گے |
معلومات