ہمیشہ عہدِ وفا نبھائیں گے ، چوم لیں گے
خفا ہوا تو اسے منائیں گے ، چوم لیں گے
انہوں نے رسمی سلام پر اکتفا کیا ہے
ہمیں لگا تھا گلے لگائیں گے ، چوم لیں گے
گلاب تو پھر گلاب ہے اس گلی کے کانٹے
بھی اپنی آنکھوں میں ہم بسائیں گے چوم لیں گے
ہمارے خط سے خفا رہیں گے وہ چند لمحے
وہ چند لمحوں میں مسکرائیں گے ، چوم لیں گے
تمہاری تصویر کے سہارے کٹیں گے دن رات
کبھی ہنسائیں ، کبھی رلائیں گے ، چوم لیں گے
اس آرزو نے حیات کے دن بڑھا دیے ہیں
کہ ایک دن وہ پلٹ کے آئیں گے ، چوم لیں گے
بس اس وجہ سے قریب جاتے نہیں قمرؔ ہم
اگر ہم ان کے قریب جائیں گے ، چوم لیں گے

0
89