دل دائمی حزیں کو مسرور کر دیا ہے
گو لمس کی تھکن نے ہمیں چور کر دیا ہے
اس آنکھ کے بھنور سے ہم بچ گئے ہیں لیکن
اس تل کی دل کشی نے محصور کر دیا ہے
تاثیر پوچھیے مت اس شوخ لب کی جس نے
آبِ محض کو بنتِ انگور کر دیا ہے
ہونے لگی ہے ان سے ہر روز چشم بندک
خوفِ زمانہ ہم نے کافور کر دیا ہے
اک ناز سے دکھا کر اپنی کلائی اس نے
ہر دیکھتی نظر کو مسحور کر دیا ہے
اس نے قبا ذرا سی پنڈلی سے کیا اٹھائی
ہم کو بنا پلائے مخمور کر دیا ہے
تجھ حسن کے علاوہ لکھا نہیں کسی پر
معصومیت نے تیری مجبور کر دیا ہے
دو چار شعر پڑھ کر حسنِ بتاں کے بارے
لوگوں نے ہم کو کافر مشہور کر دیا ہے
پہلے ہی حسنِ جاناں آفت سے کم نہیں تھا
قربِ قمرؔ نے جس کو بھرپور کر دیا ہے

0
52