آسماں ہے دسترس میں ، ہے زمیں پر دسترس
کیا کروں محبوب کو بھی ہے نہیں پر دسترس
خود کسی کی دسترس میں یہ کبھی آتا نہیں
ہے مکانِ دل کو لیکن ہر مکیں پر دسترس
ایسا لگتا ہے کہ جیسے دسترس میں چاند ہے
آج کل ہے ایک ایسی مہ جبیں پر دسترس
ہائے حسرت اک غزل لکھوں میں اس کے حسن پر
وائے ناکامی نہیں ہے جس حسیں پر دسترس
اس سہولت سے اذیت وہ مجھے دیتا رہے
ہو نہ میری یار مارِ آستیں پر دسترس
پاس وہ بیٹھا رہے اتنا ہی کافی ہے ہمیں
گو نہ ہرگز ہو ہماری ہم نشیں پر دسترس

0
74