| تم لوگ بول سکتے ہو ، بیٹھے ہو چھاؤں میں |
| ہم لوگ قید رہ گئے اپنی اناؤں میں |
| تجھ بن کرے گی تنگ مجھے موت کی پری |
| دکھتا رہے گا جسم قضا کا ہواؤں میں |
| ممکن نہیں ہے وقت سے پیچھے رہے کہ جو |
| چلتا رہے زمیں پہ سمے کی کھڑاؤں میں |
| کٹتے درخت دیکھ کے احساس ہو گیا |
| لانا نہ چاہیے تھا مجھے شہر گاؤں میں |
| دیکھو لہو کے اشک ہے تکلیف رو رہی |
| کانٹا چبھا ہوا ہے کسی گل کے پاؤں میں |
| لپٹا ہوا تصنع میں لگتا ہے التفات |
| بے ساختگی رہی نہیں دلکش اداؤں میں |
| محتاط ہو گیا ہوں کہ پہلے بھی ہے رہا |
| تجھ سا اک اور شخص مرے ناخداؤں میں |
| بس اک خدا سے روٹھنا باقی بچا ہے اب |
| مانگا ہے بے حساب اسے اپنی دعاؤں میں |
| اتری ہے آسمان سے آسیؔ وبائے عشق |
| اس کا نہیں شمار زمینی بلاؤں میں |
معلومات