حسن کو بے مہار مت کرنا
عشق سر پر سوار مت کرنا
نم رہے آنکھ میں ، مگر محدود
جھیل کو آبشار مت کرنا
قتل سے انتظار مشکل ہے
تم مرا انتظار مت کرنا
نوجوانوں کو مشورہ ہے مرا
کچھ بھی ہو جائے پیار مت کرنا
اہلِ دنیا بہت ہیں بدبودار
خود کو ان میں شمار مت کرنا
مسکرا دینا صرف گلشن میں
انتظارِ بہار مت کرنا
زندگانی سزا کی صورت ہو
خود کو یوں بے قرار مت کرنا
بیچ کی رہ تلاش کر لینا
سلسلے آر پار مت کرنا
جان پیاری ہے تو محبت سے
رابطے استوار مت کرنا
کوئی احقر سمجھ نہیں بیٹھے
اس قدر انکسار مت کرنا
شاخ سے توڑنا نہ تُو اس کو
پھول کو اشک بار مت کرنا
گر نہ جاتا ہو راستی کی طرف
راستہ اختیار مت کرنا
ساتھ رکھنا خرد مگر اس پر
اے قمرؔ ؔانحصار مت کرنا

0
84