ہماری آنکھ ان سے کیا لڑی ہے
ہر اک ساعت قیامت کی گھڑی ہے
خطا چھوٹی سہی دیدارِ بے اذن
سزا لیکن بہت اس کی کڑی ہے
نہ مجھ سے چھینیے میرا تبسم
بہت مشکل سے یہ عادت پڑی ہے
اداسی مجھ سے پہلے گھر میں آئی
یہ مجھ سے عمر میں کچھ دن بڑی ہے
مجھے لینے کے دینے پڑ گئے ہیں
محبت بات پر اپنی اڑی ہے
قدم لیتی ہے جینے کی تمنا
قضا لمحوں کی دوری پر کھڑی ہے
نہیں آنکھوں کو لمحہ بھر بھی آرام
رواں پیہم محبت کی جھڑی ہے

0
91