سارے دریا روٹھ گئے ہیں اپنے اپنے پانی سے |
دشت کے اندر بہتی نہر کی چھوٹی سی نادانی سے |
کل اک پیڑ کے اوپر چند پرندے باتیں کر رہے تھے |
اتنا گرنے کی امید نہ تھی نوعِ انسانی سے |
ممکن ہے پھر ان دونوں پر کھلنے کا مفہوم کھلے |
میری مشکل ٹکرائے گی جب تیری آسانی سے |
جس کو ہم نے مالی سمجھا تاجر نکلا پھولوں کا |
راز کھلا یہ ہم پر اپنے گلشن کی ویرانی سے |
پہلے بھی گاؤں سے واپس لوٹا ہوں پر اب کی بار |
حیرانی بھی دیکھ رہی ہے وحشت کو حیرانی سے |
کبھی کبھی تو لگتا ہے اچھا ہے میرے ساتھ نہیں |
ویسے بھی تنگ آجاتا وہ میری تہی دامانی سے |
جو بھی شہر عجز میں آیا حیرت سے مبہوت ہوا |
نور نکلتے دیکھ رہا ہے مٹی کی پیشانی سے |
معلومات