عفو کے خواستگار روتے ہیں
شاہ کے سوگوار روتے ہیں
ذکر کرتا ہوں ابنِ حیدر کا
لفظ زار و قطار روتے ہیں
لختِ شیرِ خدا رہے محصور
اس خطا پر حصار روتے ہیں
جونہی آغاز ہو محرم کا
روز لیل و نہار روتے ہیں
تاکہ تازہ رہے غمِ شبیر
ہم تبھی بار بار روتے ہیں
ریگِ دشتِ بلا کے سب ذرات
خود پہ ہیں شرم سار ، روتے ہیں
یادِ کربل میں رونے والوں کے
ساتھ سب غم گسار روتے ہیں
ایک واحد حسین ہیں جن کے
سارے سیرت نگار روتے ہیں
بے بسی پر فرات کی آسیؔ
آج تک آب شار روتے ہیں

131