تیری بانہوں کی پناہوں سے جو مینٹل بھاگے |
دفع ہو ، شہر سے نکلے ، کسی جنگل بھاگے |
وہ اگر دھوپ میں بارش کی دعائیں مانگے |
آئیں گے اس کے لیے دیکھنا بادل بھاگے |
اک جھلک دیکھتے ہی روڈ پہ جانے کتنے |
چپلیں چھوڑ کے پیچھے ترے پیدل بھاگے |
دشتِ امکان میں دیکھا جو سرابِ الفت |
ہم کسی لمس کی خواہش میں مسلسل بھاگے |
رکھ رکھاؤ کو بھلا کر اسی ڈر کے ہاتھوں |
ہو نہ جائے تو کہیں آنکھ سے اوجھل ، بھاگے |
گھوم پھر کر انہیں آنا پڑا آخر واپس |
بارہا کھول کے جو پیار کا چنگل بھاگے |
وہ کسی روز جو مے خانے میں آئے آسیؔ |
جام کرچی ہو اسے دیکھ کے بوتل بھاگے |
معلومات