پاس بھی بلاتے ہیں ، نام بھی نہیں لیتے
اور پاس جائیں تو کام بھی نہیں لیتے
ایک ہم کہ ساری عمر ان پہ وارنا چاہیں
ایک وہ کہ ہم سے اک شام بھی نہیں لیتے
ہم کچھ ایسے تاجر ہیں ، کاروبار الفت میں
خود کو بیچ دیتے ہیں ، دام بھی نہیں لیتے
کیسا وقت آیا ہے اب غریب کا رشتہ
خاص لوگ کیا لیں گے ، عام بھی نہیں لیتے
بس ذرا شغل کو ہم مے کدے میں جاتے ہیں
کب سبو پکڑتے ہیں، جام بھی نہیں لیتے

0
134