رقیبوں پر تمہارے جب کرم محسوس کرتا ہوں
میں اپنی دشت آنکھوں کو بھی نم محسوس کرتا ہوں
میں بھی انسان ہوں پتھر نہیں ہوں اے مرے ہم دم
میں چپ رہتا ہوں پر سارے ستم محسوس کرتا ہوں
مجھے ڈر ہے کہیں مروا نہ دے حساسیت مجھ کو
ہر اک انساں کے غم کو اپنا غم محسوس کرتا ہوں
مری تنہائی میں بھی اس قدر وہ پاس ہوتا ہے
میں اس کی سانس کا ہر زیر و بم محسوس کرتا ہوں
جو جیسی بات ہوتی ہے اسے ویسا سمجھتا ہوں
کسی بھی بات کو زائد نہ کم محسوس کرتا ہوں
لبوں پہ جب کبھی میرے علی کا نام آتا ہے
تمامی مشکلوں کو کالعدم محسوس کرتا ہوں
بسی جب سے ہے سینے میں محبت ان کی عترت کی
قمرؔ دل کو مدینے کا حرم محسوس کرتا ہوں

0
95