رقیبوں پر تمہارے جب کرم محسوس کرتا ہوں |
میں اپنی دشت آنکھوں کو بھی نم محسوس کرتا ہوں |
میں بھی انسان ہوں پتھر نہیں ہوں اے مرے ہم دم |
میں چپ رہتا ہوں پر سارے ستم محسوس کرتا ہوں |
مجھے ڈر ہے کہیں مروا نہ دے حساسیت مجھ کو |
ہر اک انساں کے غم کو اپنا غم محسوس کرتا ہوں |
مری تنہائی میں بھی اس قدر وہ پاس ہوتا ہے |
میں اس کی سانس کا ہر زیر و بم محسوس کرتا ہوں |
جو جیسی بات ہوتی ہے اسے ویسا سمجھتا ہوں |
کسی بھی بات کو زائد نہ کم محسوس کرتا ہوں |
لبوں پہ جب کبھی میرے علی کا نام آتا ہے |
تمامی مشکلوں کو کالعدم محسوس کرتا ہوں |
بسی جب سے ہے سینے میں محبت ان کی عترت کی |
قمرؔ دل کو مدینے کا حرم محسوس کرتا ہوں |
معلومات