| نام اس پر تمہارا لکھا رہ گیا |
| تختۂِ دل تبھی تیرتا رہ گیا |
| تیرے گھر سادہ پانی پیا تھا کبھی |
| میرے ہونٹوں پہ وہ ذائقہ رہ گیا |
| سارے اسمائے نکرہ ہوئے کالعدم |
| حافظے میں بس اک معرفہ رہ گیا |
| صبح دم آئنے پر نظر پڑ گئی |
| آئنہ آنکھ کو دیکھتا رہ گیا |
| راستہ اولیں ہم سفر تھا مرا |
| ہم سفر نہ رہا راستہ رہ گیا |
| سرخ سگنل پہ مجھ کو کچھ آیا نظر |
| ہوتے ہوتے کوئی حادثہ رہ گیا |
| اس قدر ایک دوجے کے پاس آ گئے |
| درمیاں دو بدن کے خدا رہ گیا |
| بھول بیٹھا ہوں میں بات اپنی مگر |
| یاد مجھ کو بس اک قہقہہ رہ گیا |
| میں حصارِ محبت سے نکلا تو ہوں |
| پر جو اندر مرے دائرہ رہ گیا |
| راہِ الفت ہر اک دن ملی منفرد |
| تجربہ سب دھرے کا دھرا رہ گیا |
| شوخیاں ، ولولے ، اور زندہ دلی |
| دل میں ان کے سوا جو بچا ، رہ گیا |
| مجھ پہ الزام ثابت ہوا تو یہی |
| پیار ہوتے ہوئے پارسا رہ گیا |
| سب تمنائیں مٹتی گئیں دم بدم |
| اب فقط ایک ہی مدعا رہ گیا |
| وہ زمیں زاد پائی زمیندار نے |
| نارسا تھا قمر نارسا رہ گیا |
معلومات