جس وقت بھی وہ چاند کو دیکھے گا پلٹ کر
چپ چاپ قمر ابر میں چھپ جائے گا ہٹ کر
ہمراہ بھلے عقل کو رکھ راہِ جنوں میں
پر جیسا وہ کرنے کو کہے ، اس کا الٹ کر
کر صرفِ نظر آبلہ ءِ پا سے وفا کیش
منزل کا نشاں پائے گا خاروں سے نبٹ کر
یوں جاگتے کٹنے کی نہیں ہے شبِ ہجراں
سو جا تو کسی یاد کے پیکر سے لپٹ کر
چاہت کے سفر میں تو فراموشِ بدن رہ
انمول بنے گا تو اسی دھول میں اٹ کر
ہوگا نہ وہاں جرم و خطا کا کوئی احساس
دیکھیں گے سرِ حشر مری جاں تجھے ڈٹ کر
دکھنے میں قمرؔ ؔقد ہے کوئی پانچ سے اوپر
حیرت ہے کہ رہتا ہے مرے دل میں سمٹ کر

0
93