| یہ کب کہا کہ تیر نشانے پہ مت لگا |
| اتنا تو کر کسی کے اشارے پہ مت لگا |
| لمسِ جبین دے لب و رخسار پاس رکھ |
| نمکیں پسند ہوں مجھے میٹھے پہ مت لگا |
| زلفیں ہوا کے دوش پہ اڑنے سے روک لے |
| آب و ہوائے شہر کو نشے پہ مت لگا |
| کل شب کوئی قریب تھا میرے ، بہت قریب |
| اب مجھ کو ساری بات سنانے پہ مت لگا |
| اتنا چڑھا نہ سر پہ گلابوں کو اے حسیں |
| خوشبو تو اپنے لمس کی گجرے پہ مت لگا |
| آنکھوں میں یادِ یار کی بارش پہ غور کر |
| الزام دھندلانے کا شیشے پہ مت لگا |
| محشر کا غلغلہ بھی قیامت کے بعد ہے |
| ساری توجہ ایک تماشے پہ مت لگا |
| یہ عشق انفرادی عمل ہے مرا اے دوست |
| بہتان اس کا پورے قبیلے پہ مت لگا |
| تجھ کو شبِ فراق سے شکوے سہی قمر ؔ |
| قدغن مگر سحر کے اجالے پہ مت لگا |
معلومات