| بات ہوتی ہے تری تب ہی اثر رکھتے ہیں |
| قدر اشعار مرے کچھ بھی اگر رکھتے ہیں |
| زلف کی اوٹ میں ہے ایک شہابی صورت |
| یعنی اک رات کے سائے میں سحر رکھتے ہیں |
| لب و رخسار و جبیں دیکھنا دشوار مگر |
| ہم سرِ بزم ان آنکھوں پہ نظر رکھتے ہیں |
| مہ جمالوں کی نہیں شہر میں قلت لیکن |
| مسئلہ یہ ہے کہ تجھ سی نہ کمر رکھتے ہیں |
| ہاتھ کی پشت پہ دیتے ہیں وداعی بوسہ |
| کس جگہ رکھنے کی ہے چیز ، کدھر رکھتے ہیں |
| ہم کہ رکھتے ہیں تصور میں جمالِ محبوب |
| اور کچھ لوگ سمجھتے ہیں! ہنر رکھتے ہیں |
| آپ کا حسنِ نظر اس کو سمجھتا ہے دل |
| ورنہ سینے میں تو ہم صرف کھنڈر رکھتے ہیں |
| اے صنم مشقِ ستم شوق سے پوری کر لے |
| لے ترے سامنے دل بارِ دگر رکھتے ہیں |
| صحبتِ آسی پہ نازاں ہے وہ ، حیرت کیسی |
| خوش مقدر ہیں جو یاروں میں قمر رکھتے ہیں |
معلومات