آنکھیں نہیں ہیں؟ دل نہیں؟ یا پھر جگر نہیں؟
سب کچھ ہے میرے پاس تو پھر کر حذر نہیں
اب آ چکے ہیں آپ تو رہ جائیے یہیں
دل کو مقام کیجیے صاحب ڈگر نہیں
موتی ہیں بے شمار بھلے بحر عشق میں
بہتر مگر یہی ہے کہ اس میں اتر نہیں
تسلیم ہے شکایتِ غفلت مگر یہ سوچ
غفلت سے ماورا کوئی بندہ بشر نہیں
قربت اس ایک لمس کی بخشے سکونِ جاں
وہ لمس ایسا لمس ہے جس میں شرر نہیں
چند یوم یادگار گذارے گئے جہاں
مدت سے اس دیار کی کوئی خبر نہیں
مجھ سا کوئی ملے گا ، خیالِ محال ہے
ہیں ان گنت نجوم پہ دوجا قمرؔ نہیں

0
107