آنکھیں نہیں ہیں؟ دل نہیں؟ یا پھر جگر نہیں؟ |
سب کچھ ہے میرے پاس تو پھر کر حذر نہیں |
اب آ چکے ہیں آپ تو رہ جائیے یہیں |
دل کو مقام کیجیے صاحب ڈگر نہیں |
موتی ہیں بے شمار بھلے بحر عشق میں |
بہتر مگر یہی ہے کہ اس میں اتر نہیں |
تسلیم ہے شکایتِ غفلت مگر یہ سوچ |
غفلت سے ماورا کوئی بندہ بشر نہیں |
قربت اس ایک لمس کی بخشے سکونِ جاں |
وہ لمس ایسا لمس ہے جس میں شرر نہیں |
چند یوم یادگار گذارے گئے جہاں |
مدت سے اس دیار کی کوئی خبر نہیں |
مجھ سا کوئی ملے گا ، خیالِ محال ہے |
ہیں ان گنت نجوم پہ دوجا قمرؔ نہیں |
معلومات