رفاقت کی تمنا ہو تو تنہا چھوڑ جاتے ہیں |
اجالے چھین کر سارے اندھیرا چھوڑ جاتے ہیں |
میں کہہ تو دوں اسے اپنا مگر یہ سوچ کر چپ ہوں |
کہ اپنے ہی مجھے اکثر اکیلا چھوڑ جاتے ہیں |
مداوائے الم سمجھا جنہیں بھی اس زمانے میں |
وہ دے کر درد کا اک اور صحرا چھوڑ جاتے ہیں |
نظر کے راستے جو بھی مرے دل میں اترتے ہیں |
نجانے کیا سبب ہے وہ بسیرا چھوڑ جاتے ہیں |
یہ اجلے چاند سے چہرے فقط اک خواب ہوتے ہیں |
جو ہوتے ہی حقیقت کا سویرا ، چھوڑ جاتے ہیں |
کبھی وہ بھول جاتے ہیں مرے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ |
کبھی آنکھوں میں وہ اپنا سراپا چھوڑ جاتے ہیں |
ہم اپنی ذات سے تکمیل کرتے ہیں قمر جن کی |
مکمل ہو کے وہ ہم کو ادھورا چھوڑ جاتے ہیں |
معلومات