ترا بھرم تری اوقات سے زیادہ ہے |
وگرنہ میرا ملاقات کا ارادہ ہے |
جواہرات کی چوری سے خوف آنے لگا |
تنِ حسیں پہ ضرورت سے کم لبادہ ہے |
مرا خیال ہٹا ہی نہیں کبھی تجھ سے |
یہ شاعری تری صورت سے استفادہ ہے |
بہت سے اشک لیے آرزو ہیں بہنے کی |
پہ میرے ضبط کا دامن بہت کشادہ ہے |
ہماری جاگتی آنکھیں بھی سوئی لگتی ہیں |
کہ ان کا راہ نما خواب کا برادہ ہے |
جس ابر زاد کے ہیں منتظر سلگتے ہم |
اسے پہنچنے میں کچھ وقت ہے، پیادہ ہے |
میں لکھ چکا ہوں محبت پہ اس سے پہلے بھی |
نیا کلام اسی جرم کا اعادہ ہے |
لڑائی اصل میں ہونی ہے مات کے ڈر سے |
جو میری جیت کے رستے میں ایستادہ ہے |
مجھے یہ بات ہی مایوس ہونے دیتی نہیں |
بچھڑتے وقت کہا تھا، ملیں گے، وعدہ ہے |
کیا ہے جس نے بھی پامال حرمتِ زن کو |
مری نظر میں یقیناً حرام زادہ ہے |
مثالِ گل ہے مجھے شاعری قمر آسی |
یہ بوجھ عشق نے میری کمر پہ لادا ہے |
معلومات