کیوں ظلم کو سہتے ہو صدا کیوں نہیں دیتے
جو دل پہ گزرتی ہے بتا کیوں نہیں دیتے
ہر جور و ستم کس لیے سہہ جاتے ہو چپ چاپ
باطل کے محلات جلا کیوں نہیں دیتے
ہر بار ہی مجرم کو بچا لیتے ہیں منصف
ظالم کو سرِ عام سزا کیوں نہیں دیتے
شکوہ ہے مجھے اہلِ سخن ، اہلِ قلم سے
سوئے ہوئے انساں کو جگا کیوں نہیں دیتے
باتوں سے نہ چھٹ پائے گی ظلمت یہ جہاں کی
اے اہل ہنر آپ ضیاء کیوں نہیں دیتے
چنگاری جو مضمر ہے جوانانِ وطن میں
اشعار سے تم اس کو ہوا کیوں نہیں دیتے
ہر روز نیا درد بیاں کرتے ہو آسی
ہر آہ کو سینے میں دبا کیوں نہیں دیتے

0
105