گھومتے ہیں شہر میں جو لوگ بے پرواہ سے
مل رہا ہے فیض ان کو عشق کی درگاہ سے
حال کیا ہوگا حقیقت میں اگر وہ آ ملیں
گلستانِ جسم کھل اٹھتا ہے جب افواہ سے
عرضِ حالِ کربِ ہجرِ بے کراں ہے رائگاں
جب جوابِ عرض کا آغاز ہو اخّاہ سے
بِل ، کرائے ، دودھ ، راشن سے اگر پیسے بچے
ایک گڑیا لازمی لینی ہے اس تنخواہ سے
تجھ کو لگتا ہے کہ رکھے گا وہ الفت کا بھرم
ہے عجب امید رکھنا خیر کی بد خواہ سے
آپ اپنی داد اپنے پاس ہی رکھیے جناب
مت نمک چھڑکائیے زخمِ جگر پر واہ سے
غیر ہوتا تو سناتے قصۂِ لطفِ صنم
کیا کہا جائے قمر خود بین و خود آگاہ سے

0
177