بہتری ہر آزمائش میں ہے پیدا کی گئی
مصلحت پوشیدہ شورش میں ہے پیدا کی گئی
آپ اس بیٹی کے دکھ کی کیفیت سمجھیں ذرا
جو کسی بیٹے کی خواہش میں ہے پیدا کی گئی
لہلہاتی فصلِ گل کے وہ مقدر میں نہیں
جو کشش تجھ لب کی جنبش میں ہے پیدا کی گئی
رقص کرتی ہر کرن کو ہے اسی کی آرزو
جو مہک ذرے کی تابش میں ہے پیدا کی گئی
سوچے سمجھے چند جملے بول کر یاروں کے بیچ
تازگی اک مردہ رنجش میں ہے پیدا کی گئی
لذتِ حسنِ نظر کے واسطے ہی چاشنی
ہر ادائے حسنِ مہوش میں ہے پیدا کی گئی
دیکھنے سے تشنہ آنکھوں کی تپش جاتی رہی
ٹھنڈ ایسی ایک آتش میں ہے پیدا کی گئی
سبز ہوتی ہے اسی سے گود بنجر دشت کی
با نمو تاثیر بارش میں ہے پیدا کی گئی
شعر کہنا اس بدن پر اس لیے چھوڑا نہیں
کامیابی کشتِ کوشش میں ہے پیدا کی گئی
قمر آسی

0
70