دشمن کیوں ہے آج وہ اپنی بیٹی کی آزادی کی |
جس نے گھر سے بھاگ کے اپنی مرضی سے تھی شادی کی |
جس دن تیرا والد تیرے لہجے سے ڈر جائے گا |
پہلی اینٹ اسی دن رکھی جائے گی بربادی کی |
میری پشت پہ اینٹوں میں کچھ اور اضافہ کر دو تم |
آج مجھے اک خواہش پوری کرنی ہے شہزادی کی |
کلیاں،گلیاں، بادل، پربت سب میں اس کی خوشبو ہے |
کہتے ہو تو سیر کراؤں تم کو اس کی وادی کی |
اپنی عمر سے میں جو یارو اتنا زیادہ لگتا ہوں |
کچھ ہے ہاتھ محبت کا ، کچھ دنیا نے استادی کی |
اس دنیا کے ہر ذی روح کا رزق خدا کے ذمہ ہے |
دنیا کو پھر کیوں ہے چنتا اس بڑھتی آبادی کی |
تم سے کوئی کام قمرؔ جی پورا بھی ہو پایا ہے؟ |
آدھا علم ، ادھورے سپنے اور چاہت بھی آدھی کی |
معلومات