| چل بھیگ جائیں فردا کے خدشات بھول کر |
| برسی ہے میرے شہر میں برسات بھول کر |
| ہوتا ہے زندگی میں ضروری وہ ایک شخص |
| دے اہمیت خلوص کو جو دھات بھول کر |
| روشن پرائی آگ سے کم ظرف کچھ دیے |
| سورج پہ بات کرتے ہیں اوقات بھول کر |
| آؤں گا لوٹ کر اے مرے شہرِ ناسپاس |
| درپیش زندگی کو میں خطرات بھول کر |
| بولا بھی تھا کہ بولنے سے قبل تولیے |
| مشکوک کر دیا ناں اُسے بات بھول کر |
| اک آنکھ دیکھ کر نہ اٹھائی دوبارہ آنکھ |
| دل میں دبے ہوئے سبھی جذبات بھول کر |
| سگنل پہ کل بھکاریوں کی عید ہوگئی |
| سب اس کو دیکھنے لگے خیرات بھول کر |
| جس جس کو یاد تھا وہ سراپا ، بہک گیا |
| میں فائدے میں رہ گیا وہ ذات بھول کر |
| ملنے کی ضد میں ٹال رہا ہوں کہ خوف ہے |
| سینے سے لگ نہ جائے روایات بھول کر |
| خنجر صفت لبوں کی طرف دیکھنے لگے |
| موجود پچھلے گھاؤ کے اثرات بھول کر |
| لیتا ہے ایک شوخ سے دادِ سخن قمرؔ |
| اپنے تخیلات کی خدمات بھول کر |
| قمرآسیؔ |
معلومات