| کلی کھل کر ابھی مہکی نہیں ہے |
| ہمیں بھی وصل کی جلدی نہیں ہے |
| مسلسل حُسن کو تکنے کی عادت |
| پسندیدہ تو ہے اچھی نہیں ہے |
| لب و رخسار دیکھے پی رہا ہوں |
| وگرنہ چائے میں چینی نہیں ہے |
| کوئی مہکا ہوا شفاف پیڑو |
| حسیں اس سے کوئی وادی نہیں ہے |
| سمجھ دنیا میں تو نے کچھ نہ دیکھا |
| کمر اس کی اگر دیکھی نہیں ہے |
| جگر کے پار ہے جس کا نظارہ |
| کسی کی ناف ہے ، برچھی نہیں ہے |
| میں اس کو چومنا تو چاہتا ہوں |
| مگر اس پر صنم راضی نہیں ہے |
| مری آنکھیں کسی کو رو چکی ہیں |
| اب اس ساگر میں نم باقی نہیں ہے |
| سبھی کو ہو نہیں سکتی میسر |
| محبت عطر کی شیشی نہیں ہے |
معلومات