کلی کھل کر ابھی مہکی نہیں ہے
ہمیں بھی وصل کی جلدی نہیں ہے
مسلسل حُسن کو تکنے کی عادت
پسندیدہ تو ہے اچھی نہیں ہے
لب و رخسار دیکھے پی رہا ہوں
وگرنہ چائے میں چینی نہیں ہے
کوئی مہکا ہوا شفاف پیڑو
حسیں اس سے کوئی وادی نہیں ہے
سمجھ دنیا میں تو نے کچھ نہ دیکھا
کمر اس کی اگر دیکھی نہیں ہے
جگر کے پار ہے جس کا نظارہ
کسی کی ناف ہے ، برچھی نہیں ہے
میں اس کو چومنا تو چاہتا ہوں
مگر اس پر صنم راضی نہیں ہے
مری آنکھیں کسی کو رو چکی ہیں
اب اس ساگر میں نم باقی نہیں ہے
سبھی کو ہو نہیں سکتی میسر
محبت عطر کی شیشی نہیں ہے

1
193
خوبصورت ہےےےےے واااااااااہ کیا کہنےےے

0