اشاروں ہی اشاروں میں تکلم ہوتا جاتا ہے |
مزاجِ یار برہم اور برہم ہوتا جاتا ہے |
گزارش ہے کہ پھر سے آ کے زخمِ دل کو تازہ کر |
پرانا زخم دھیرے دھیرے مدھم ہوتا جاتا ہے |
عجب قصہ ہے آنکھوں سے ان آنکھوں کے تصادم کا |
محبت بڑھتی ہے جوں جوں تصادم ہوتا جاتا ہے |
دمِ آخر ، ترا بالیں پہ آ کر ، ڈوبتا میرا |
تنفس دیکھ کر ، گہرا تبسم ہوتا جاتا ہے |
گیا وہ دور جب پاکیزگی ہوتی تھی چاہت میں |
ہوس کا زہر اب چاہت میں مدغم ہوتا جاتا ہے |
میں سمجھا تھا کہ کچھ دن میں مری جاں چھوٹ جائے گی |
مگر یہ درد الفت کا تو پیہم ہوتا جاتا ہے |
خزاں میں پھول جب کھلتے ہوئے آسی ؔنظر آئیں |
وفا اور عشق کا سمجھو کہ سنگم ہوتا جاتا ہے |
معلومات