تمہارا عہدہ و نام و نسب اضافی ہے
تم اس کے شہر سے آئے ہوئے ہو! کافی ہے
وہ حور ہے کہ نہیں ہے ، گلاب ہے کہ تراب
یہ مسئلہ ابھی لوگوں میں اختلافی ہے
نہ جائے کوئی گھڑی اس کے ورد سے خالی
ہر ایک رنج و محن میں وہ اسم شافی ہے
جہاں سے چاہو مرا جسم نوچ سکتے ہو
سگانِ کوچہ ءِ جاناں تمہیں معافی ہے
بہت جتن سے ہوا میں ترے مطابق ہوں
مری ہوس مرے اخلاص کی تلافی ہے
منافقت میں برابر کا حصے دار ہے تو
ترا کلام اگر کام کے منافی ہے
وگرنہ شہر میں کیوں ناپ وائرل ہوتا
ضرور یہ ترے درزی کی موشگافی ہے
بھرم حسینوں کا رکھتے ہیں ملتفت ہو کر
ہنر ہمارا حقیقت میں شعر بافی ہے
بغور دیکھنے والے ہی دیکھ سکتے ہیں
کسی کا عکس مری آنکھ میں غلافی ہے

0
62