اٹھتی ہے میرے دل میں غم کی کسک ابھی بھی |
جب دیکھ لوں کہیں پر اس کی جھلک ابھی بھی |
جس کوہ پر کبھی ہم بیٹھےتھے لمحہ بھر کو |
اس کو مدام جھک کر چومے فلک ابھی بھی |
مدت ہوئی کسی دن گزرا تھا اس گلی سے |
مدہوش کر رہی ہے ہم کو مہک ابھی بھی |
دامن چھڑا کے جانے کب سے وہ جا چکا ہے |
محسوس ہو رہی ہے لیکن دھمک ابھی بھی |
بھٹکے ہوئے مسافر گزرے کئی یہاں سے |
رستہ تمہارا دیکھے دل کی سڑک ابھی بھی |
رہتا ہے سامنے ان جھمکوں کا ہی نظارہ |
آنکھوں میں چبھ رہی ہے ان کی چمک ابھی بھی |
جی اٹھے پھر سے آسیؔ ، گلشن بھی دل کا مہکے |
پا لے جو اس بدن کی روشن دھنک ابھی بھی |
معلومات