اٹھتی ہے میرے دل میں غم کی کسک ابھی بھی
جب دیکھ لوں کہیں پر اس کی جھلک ابھی بھی
جس کوہ پر کبھی ہم بیٹھےتھے لمحہ بھر کو
اس کو مدام جھک کر چومے فلک ابھی بھی
مدت ہوئی کسی دن گزرا تھا اس گلی سے
مدہوش کر رہی ہے ہم کو مہک ابھی بھی
دامن چھڑا کے جانے کب سے وہ جا چکا ہے
محسوس ہو رہی ہے لیکن دھمک ابھی بھی
بھٹکے ہوئے مسافر گزرے کئی یہاں سے
رستہ تمہارا دیکھے دل کی سڑک ابھی بھی
رہتا ہے سامنے ان جھمکوں کا ہی نظارہ
آنکھوں میں چبھ رہی ہے ان کی چمک ابھی بھی
جی اٹھے پھر سے آسیؔ ، گلشن بھی دل کا مہکے
پا لے جو اس بدن کی روشن دھنک ابھی بھی

0
168