آنکھوں کو پیار کی یہ سزا دینی چاہیے
شمعِ امیدِ وصل بجھا دینی چاہیے
اے کاش ان کے دل میں کبھی آئے یہ خیال
ہم کو مئے وصال پلا دینی چاہیے
امید عدل گرچہ نہیں منصفین سے
زنجیرِ عدل پھر بھی ہلا دینی چاہیے
ملتا ہوں مسکرا کے میں یوں حاسدین سے
آتش کو مسکرا کے ہوا دینی چاہیے
ممکن نہیں علاج کسی طور اس لیے
بیمارِ عاشقی کو دعا دینی چاہیے
تالا لگا ہوا ہے جو در کو تو کیا ہوا
گھنٹی تمہارے گھر کی بجا دینی چاہیے
یہ سوچ کر ہی آپ عیادت کو آئیے
ہے جاں بہ لب مریض ، دوا دینی چاہیے
الفت کی داستان جو آنکھوں میں درج ہے
حرفِ غلط سمجھ کے مٹا دینی چاہیے
بکتا نہیں یہ مال زمانے میں اس لیے
اخلاص کی دکان بڑھا دینی چاہیے

0
93