| رہے ہیں پہلے بہت برس آب و گل سبوتاژ |
| گرا کے برقِ جفا نہ کر کشت دل سبوتاژ |
| گنوا کے رختِ فراق پائی ہے شام قربت |
| جسے تغافل کرے ترا مستقل سبوتاژ |
| چھلک رہا تھا غرور ان کی ہر اک ادا سے |
| ترے تبسم سے گل ہوئے ہیں خجل سبوتاژ |
| لبوں کی سرخی سے دلکشی میں اضافہ ہوگا |
| مگر نہ کر پائے گی ترا حسنِ تل سبوتاژ |
| شجر بنا ہے جو پودا جڑ سے جڑا رہا ہے |
| ہوا ، رہا جو نہ اصل سے متصل ، سبوتاژ |
| لگے مرا دل بدن سے باہر دھڑک رہا ہے |
| تمہاری سانسوں کا ربط بھی منفعل سبوتاژ |
| ہم اہلِ وحشت سے لذتِ درد چھینیے مت |
| نہ کیجیے کر کے زخم دل مندمل سبوتاژ |
| میں حسن ترتیب دہر دیکھوں تو سوچتا ہوں |
| کروں کسی روز ہو کے اس میں مخل سبوتاژ |
| یہ کس نے بزمِ طرب میں اسمِ صنم پکارا |
| کیا ہے کس نے قمرؔ یہ ماحول چل سبوتاژ |
معلومات