دعائیں کرتا ، تمنا جسے بتاتا تھا
اگر نہ حال پہ ہنستا جسے بتاتا تھا
کجا گلاب کجا شوخی ءِ لبِ جاناں
نہیں ہے راکھ بھی سونا جسے بتاتا تھا
جوزخم اس نے ادھیڑے ہیں ٹھیک ہو چکے تھے
ہر اک مریض مسیحا جسے بتاتا تھا
کیا فریب زمانے نے ، عجز کا رستہ
بہت خراب تھا ، اچھا جسے بتاتا تھا
میں ایک جست میں آنکھوں سے دل تلک پہنچا
وہ اک ندی تھی تُو دریا جسے بتاتا تھا
عجب نہیں کہ بھرم ٹوٹ کر ہوا کرچی
مرا نہیں تھا میں اپنا جسے بتاتا تھا
ہنر تو دیکھ کہ سستا خرید لایا دل
حسین شخص تو مہنگا جسے بتاتا تھا
وگرنہ حال سے کیوں کر وہ بے خبر رہتا
اُسے بتاتا نہیں تھا جسے بتاتا تھا
ہماری آنکھ کی بینائی لے گیا آسی
تمام شہر اجالا جسے بتاتا تھا

0
66