جگر میں آگ بھڑکانے لگی ہے
کسی کی یاد پھر آنے لگی ہے
مریض عشق بنتا جا رہا ہوں
طبیعت آپ پر آنے لگی ہے
اداسی پی رہی ہے خون میرا
بلائے ہجر جاں کھانے لگی ہے
سبیلِ وصل کر پیدا کہ اب تو
قضا بھی سر پہ منڈلانے لگی ہے
خیالِ عمرِ رفتہ مست کُن ہے
سنہری شام بہکانے لگی ہے
برستی جا رہی ہے بارش ہجر
عمارت پیار کی ڈھانے لگی ہے
اسے بھی ہو چکا ہے عشق آسی
کہ اب وہ شعر فرمانے لگی ہے

0
54