| پرندِ آرزو کی یوں چہک زیادہ ہے |
| کہ پھڑپھڑانے کی اس میں للک زیادہ ہے |
| یہ رعبِ حسن نہیں احترام ہے ، مجھ میں |
| نہیں ہے خوف زیادہ ، جھجھک زیادہ ہے |
| حصارِ چشم سے باہر نکل نہ جائے غم |
| رہے خیال ، نہ جائے چھلک ، زیادہ ہے |
| محیط صرف بدن کو نہیں خیال کی حد |
| حدِ گمان تری سوچ تک زیادہ ہے |
| میں اس کے ظرف پہ حیران ہوں کہا جس نے |
| نگاہِ تشنہ کو اک بھی جھلک زیادہ ہے |
| زیادہ دیر نہیں چھوڑتی اکیلا زیست |
| یقین کم ہے اسے مجھ پہ شک زیادہ ہے |
| گلاب شخص تجھے دیکھ کر نہیں کھلتا |
| زیادہ رنگ ہے یا پھر مہک زیادہ ہے |
| بہت قریب رہا ہوں سو جانتا ہوں میں |
| کہ اس بدن میں شکر کم ، نمک زیادہ ہے |
| مری چلے تو کبھی نام تک نہ لوں تیرا |
| پہ طفلِ دل جسے تیری ہُمک زیادہ ہے |
| ضرر شعار نہیں ، آتشِ محبت میں |
| تپش زیادہ نہیں ہے بھڑک زیادہ ہے |
| قمرؔ وہ چھت پہ تجھے دیکھنے نہیں آئی |
| عبث جبین پہ تیری چمک زیادہ ہے |
| قمرآسیؔ |
معلومات