ہجر ہم کو ڈستا ہے ، یاد خوں رلاتی ہے |
فرقوں کے موسم کی ہر ادا ستاتی ہے |
چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھنا نہیں اچھا |
تم جو روٹھ جاتے ہو سانس تھم سی جاتی ہے |
یوں تو اس پری وش کی ہر ادا قیامت ہے |
پر نگاہِ ناز اس کی برق جو گراتی ہے |
شہر بھر کے پھولوں کے جیب خرچ ملتا ہے |
جب نظر جھکائے وہ صرف مسکراتی ہے |
اب تلک فضاؤں پر راج تجھ مہک کا ہے |
آج بھی صبا تیرے گیت گنگناتی ہے |
ہم تو اس کی الفت میں خواب بھی گنوا بیٹھے |
پھر بھی کیوں ہمیں آخر نیند آزماتی ہے |
حادثے کئی آسی خوش نما بھی ہوتے ہیں |
جس طرح ہوا ہم کو عشق حادثاتی ہے |
معلومات