ہجر ہم کو ڈستا ہے ، یاد خوں رلاتی ہے
فرقوں کے موسم کی ہر ادا ستاتی ہے
چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھنا نہیں اچھا
تم جو روٹھ جاتے ہو سانس تھم سی جاتی ہے
یوں تو اس پری وش کی ہر ادا قیامت ہے
پر نگاہِ ناز اس کی برق جو گراتی ہے
شہر بھر کے پھولوں کے جیب خرچ ملتا ہے
جب نظر جھکائے وہ صرف مسکراتی ہے
اب تلک فضاؤں پر راج تجھ مہک کا ہے
آج بھی صبا تیرے گیت گنگناتی ہے
ہم تو اس کی الفت میں خواب بھی گنوا بیٹھے
پھر بھی کیوں ہمیں آخر نیند آزماتی ہے
حادثے کئی آسی خوش نما بھی ہوتے ہیں
جس طرح ہوا ہم کو عشق حادثاتی ہے

0
73