| کیا زخم ہے وہ زخم کہ مرہم نہیں جس کا |
| کیا درد ہے جز دل کوئی محرم نہیں جس کا |
| کیا داغ ہے جلنا کوئی دم کم نہیں جس کا |
| کیا غم ہے کہ آخر کبھی ماتم نہیں جس کا |
| کس داغ میں صدمہ ہے فراقِ تن و جاں کا |
| وہ داغ ضعیفی میں ہے، فرزندِ جواں کا |
| جب باغِ جہاں اکبرِ ذی جاہ سے چُھوٹا |
| پیری میں برابر کا پسر شاہ سے چُھوٹا |
| فرزندِ جواں، ابنِ اسد اللہ سے چُھوٹا |
| کیا اخترِ خورشید لقا ماہ سے چُھوٹا |
| تصویرِ غم و درد سراپا ہوئے شپّیر |
| ناموس میں ماتم تھا کہ تنہا ہوئے شپّیر |
| ہے ہے علی اکبر کا ادھر شور تھا گھر میں |
| اندھیر تھی دنیا، شہِ والا کی نظر میں |
| فرماتے تھے سوزش ہے عجب داغِ پسر میں |
| اٹھتا ہے دھواں، آگ بھڑکتی ہے جگر میں |
| پیغامِ اجل اکبرِ ناشاد کا غم ہے |
| عاجز ہے بشر جس سے وہ اولاد کا غم ہے |
| اس گیسوؤں والے کے بچھڑ جانے نے مارا |
| افسوس بڑھا ضعف، گھٹا زور ہمارا |
| دنیا میں محمد کا یہ ماتم ہے دوبارا |
| عالم ہے عجب جانِ جہاں آج سدھارا |
| چادر بھی نہیں لاشۂ فرزندِ حَسیں پر |
| کس عرش کے تارے کو سلا آئے زمیں پر |
| پیری پہ مری رحم کر اے خالقِ ذوالمَن |
| طے جلد ہو اب مرحلۂ خنجر و گردن |
| قتلِ علی اکبر کی خوشی کرتے ہیں دشمن |
| تجھ پر مرے اندوہ کا سب حال ہے روشن |
| مظلوم ہوں، مجبور ہوں، مجروح جگر ہوں |
| تو صبر عطا کر مجھے، یا رب کہ بشر ہوں |
| پھر لاشۂ اکبر نظر آئے تو نہ روؤں |
| برچھی جو کلیجے میں در آئے تو نہ روؤں |
| دل دردِ محبت سے بھر آئے تو نہ روؤں |
| سو بار جو منہ تک جگر آئے تو نہ روؤں |
| شکوہ نہ زباں سے غمِ اولاد میں نکلے |
| دم تن سے جو نکلے تو تری یاد میں نکلے |
| اک عمر کی دولت تھی جسے ہاتھ سے کھویا |
| ہر وقت رہا، میں تری خوشنودی کا جویا |
| پالا تھا جسے گود میں وہ خاک پہ سویا |
| میں لاش پہ بھی خوف سے تیرے نہیں رویا |
| قسمت نے جوانوں کو سبکدوش کیا ہے |
| مجھ کو تو اجل نے بھی فراموش کیا ہے |
| یہ تازہ جواں تھا مری پیری کا سہارا |
| آگے مرے اعدا نے اسے نیزے سے مارا |
| ناشاد و پُر ارمان اٹھا وہ مرا پیارا |
| اٹھارھواں تھا سال کہ دنیا سے سدھارا |
| سمجھوں گا میں روئے مجھے روئیں گے اس کو |
| یہ ہے وہ جواں مرگ کہ سب روئیں گے اس کو |
| اس حال سے روتے ہوئے داخل ہوئے گھر میں |
| تر تھی تنِ انور کی قبا خونِ پسر میں |
| سوزش دلِ پُر داغ میں ہے، درد جگر میں |
| خم آ گیا تھا بارِ مصیبت سے کمر میں |
| پنہاں تھا جو فرزندِ جگر بند نگہ سے |
| موتی رُخِ انور سے ٹپکتے تھے مژہ سے |
| بانو سے کہا رو کے خوشا حال تمھارا |
| صرفِ رہِ معبود ہوا مال تمھارا |
| مقبول ہوئی نذر یہ اقبال تمھارا |
| سجدے کرو، پروان چڑھا لال تمھارا |
| دل خوں ہے کلیجے پہ سناں کھا کے مرے ہیں |
| ہم اُس کی امانت اسے پہنچا کے پھرے ہیں |
| جیتے تھے تو آخر علی اکبر کبھی مرتے |
| گر بیاہ بھی ہوتا تو زمانے سے گزرتے |
| سینے سے کلیجے کو جدا ہم جو نہ کرتے |
| بگڑی ہوئی امّت کے نہ پھر کام سنورتے |
| گر حلق سے اس شیر کی شمشیر نہ ملتی |
| یہ اجر نہ ہاتھ آتا یہ توقیر نہ ملتی |
| صاحب، تمھیں ہم سے ہے محبت تو نہ رونا |
| بیٹا تو گیا، صبر کی دولت کو نہ کھونا |
| اکبر نے تو آباد کیا، قبر کا کونا |
| ہم بھی ہوں اگر ذبح تو بیتاب نہ ہونا |
| جز نفع ضرر طاعتِ باری میں نہیں ہے |
| جو صبر میں لذّت ہے وہ زاری میں نہیں ہے |
| اکبر نے تو جاں اپنی جوانی میں گنوائی |
| تھی کون سی ایذا جو نہ اس لال نے پائی |
| افسوس کہ پیری میں ہمیں موت نہ آئی |
| تلوار نہ سر پر نہ سناں سینے پہ کھائی |
| غم کھائیں گے خونِ دلِ مجروح پئیں گے |
| کیا زور ہے جب تک وہ جِلائے گا جئیں گے |
| دستور ہے مرتا ہے پدر آگے پسر کے |
| پہلے وہ اٹھے تھامنے والے تھے جو گھر کے |
| اب کون اٹھائے گا جنازے کو پدر کے |
| افسوس لحد بھی نہ ملے گی ہمیں مر کے |
| سر نیزے پہ اور دشت میں تن ہوگا ہمارا |
| خاک اڑ کے پڑے گی یہ کفن ہوگا ہمارا |
| زینب سے کہا رختِ کُہن، لاؤ تو پہنیں |
| ملبوسِ شہنشاہِ زمن، لاؤ تو پہنیں |
| موت آ گئی اب سر پہ کفن، لاؤ تو پہنیں |
| کپڑے جو پھٹے ہوں وہ بہن، لاؤ تو پہنیں |
| سر کٹ کے جو تن وادیِ پُر خار میں رہ جائے |
| شاید یہی پوشاک تنِ زار میں رہ جائے |
| اللہ نے بچپن میں مرے ناز اٹھائے |
| طفلی میں کسی نے شرف ایسے نہیں پائے |
| عریاں تھا کہ جبرئیلِ امیں عرش سے آئے |
| فردوس کے حلّے مرے پہنانے کو لائے |
| بیکس ہوں، دل افگار ہوں آوارہ وطن ہوں |
| میں ہوں وہی شبیر کہ محتاجِ کفن ہوں |
| جو مصلحت اُس کی ہے نہیں رحم سے خالی |
| صابر کو عطا کرتا ہے وہ رتبۂ عالی |
| وارث وہی بچّوں کا وہی رانڈوں کا والی |
| مقہور ہے وہ جس نے بنا ظلم کی ڈالی |
| قاتل کا دمِ ذبح بھی شکوہ نہ کروں گا |
| یہ بھی کرم اس کا ہے کہ مظلوم مروں گا |
| ناشاد بہن پاؤں پہ گر کر یہ پکاری |
| ماں جائے برادر، تری غربت کے میں واری |
| بن بھائی کے ہوتی ہے یدُاللہ کی پیاری |
| گھر لٹتا ہے کیوں کر نہ کروں گریہ و زاری |
| رونے کو نجف تک بھی کُھلے سر نہ گئی میں |
| خالی یہ بھرا گھر ہوا اور مر نہ گئی میں |
| بچپن تھا کہ امّاں سے ہوئی پہلے جدائی |
| بابا کے لیے ماتمی صف میں نے بچھائی |
| روتی تھی پدر کو کہ سفر کر گئے بھائی |
| یثرب بھی چُھٹا دیس سے پردیس میں آئی |
| غم دیکھوں بڑے بھائی کا ماں باپ کو روؤں |
| قسمت میں یہ لکّھا تھا کہ اب آپ کو روؤں |
| فرمایا کہ دنیا میں نہیں موت سے چارا |
| رہ جاتے ہیں ماں باپ بچھڑ جاتا ہے پیارا |
| ہجرِ علی اکبر تھا کسی کو بھی گوارا |
| وہ مر گئے اور کچھ نہ چلا زور ہمارا |
| دیکھا جسے آباد وہ گھر خاک بھی دیکھو |
| اب خاتمۂ پنجتنِ پاک بھی دیکھو |
| کس کس کی نہ دولت پہ زوال آ گیا زینب |
| پابندِ رضا تھا تو شرف پا گیا زینب |
| دنیا سے گیا جو تنِ تنہا گیا زینب |
| کِھلتا نہیں وہ پھول جو مرجھا گیا زینب |
| جو منزلِ ہستی سے گیا پھر نہیں ملتا |
| یہ راہ وہ ہے جس کا مسافر نہیں ملتا |
| میں کون ہوں اِک تشنہ لب و بیکس و محتاج |
| بندہ تھا خدا کا سو ہوا ہوں میں طلب آج |
| وہ کیا ہوئے جو لوگ تھے کونین کے سرتاج |
| نہ حیدرِ کرّار ہیں نہ صاحبِ معراج |
| کچھ پیٹنے رونے سے نہ ہاتھ آئیگا زینب |
| آیا ہے جو اس دہر میں وہ جائیگا زینب |
| کس طرح وہ بیکس نہ اجل کا ہو طلب گار |
| ناصر نہ ہو جس کا کوئی دنیا میں نہ غمخوار |
| اک جانِ حزیں لاکھ مصیبت میں گرفتار |
| اکبر ہیں نہ قاسم ہیں نہ عبّاسِ علمدار |
| کوشش ہے کہ سجدہ تہِ شمشیر ادا ہو |
| تنہائی کا مرنا ہے خدا جانیے کیا ہو |
| قاتل جو چُھری خشک گلے پر مرے پھیرے |
| خالص رہے نیّت کوئی تشویش نہ گھیرے |
| کٹنے میں رگوں کے یہ سخن لب پہ ہو میرے |
| قربان حسین ابنِ علی نام پہ تیرے |
| بہنوں کی نہ ہو فکر نہ بچّوں کی خبر ہو |
| اس صبر سے سر دوں کہ مہم عشق کی سر ہو |
| گو تیسرا فاقہ ہے مگر ہے مجھے سیری |
| گھبراتا ہوں ہوتی ہے جو سر کٹنے میں دیری |
| کچھ غم نہیں امّت نے نظر مجھ سے جو پھیری |
| راضی رہے معبود یہی فتح ہے میری |
| ہدیہ مرا مقبول ہو درگاہ میں اس کی |
| آباد وہ گھر ہے جو لُٹے راہ میں اس کی |
| فرما کے یہ ہتھیار سجے آپ نے تن پر |
| غُل پڑ گیا شاہِ شہدا چڑھتے ہیں رن پر |
| احمد کی قبا آپ نے پہنی جو بدن پر |
| پیدا ہوا اک جلوۂ نَو رختِ کہن پر |
| اللہ رے خوشبو تنِ محبوبِ خدا کی |
| پھولوں کی مہک آ گئی کلیوں سے قبا کی |
| وہ پھول سے رخسار گلابی وہ عمامہ |
| تعریف میں خود جس کی سر افگندہ ہے خامہ |
| وہ زرد عبا نور کی وہ نور کا جامہ |
| برسوں جو لکھیں ختم نہ ہو مدح کا نامہ |
| کپڑے تنِ گلرنگ کے خوشبو میں بسے تھے |
| ٹوٹی کمر امّت کی شفاعت پہ کسے تھے |
| شمشیرِ یداللہ لگائی جو کمر سے |
| سر پیٹ کے زینب نے ردا پھینک دی سر سے |
| سمجھاتے ہوئے سب کو چلے آپ جو گھر سے |
| بچّوں کی طرف تکتے تھے حسرت کی نظر سے |
| اُس غُل میں جدا شہ سے نہ ہوتی تھی سکینہ |
| پھیلائے ہوئے ہاتھوں کو روتی تھی سکینہ |
| شہ کہتے تھے بی بی ہمیں رو کر نہ رلاؤ |
| پھر پیار کریں گے ہم تمھیں منہ آگے تو لاؤ |
| وہ کہتی تھی ہمراہ مجھے لے لو تو جاؤ |
| میں کیا کروں میداں میں اگر جا کے نہ آؤ |
| نیند آئے گی جب آپ کی بُو پاؤں گی بابا |
| میں رات کو مقتل میں چلی آؤں گی بابا |
| فرمایا نکلتی نہیں سیدانیاں باہر |
| چھاتی پہ سلائے گی تمھیں رات کو مادر |
| وہ کہتی تھی سوئیں گے کہاں پھر اعلی اصغر |
| فرماتے تھے بس ضد نہ کرو صدقے میں تم پر |
| شب ہوئے گی اور دشت میں ہم ہوئینگے بی بی |
| اصغر مرے ساتھ آج وہیں سوئینگے بی بی |
بحر
|
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات