وہ دشمنِ جاں، جان سے پیارا بھی کبھی تھا |
اب کس سے کہیں کوئی ہمارا بھی کبھی تھا |
اترا ہے رگ و پے میں تو دل کٹ سا گیا ہے |
یہ زہرِ جدائی کہ گوارا بھی کبھی تھا |
ہر دوست جہاں ابرِ گریزاں کی طرح ہے |
یہ شہر کبھی شہر ہمارا بھی کبھی تھا |
تتلی کے تعاقب میں کوئی پھول سا بچہ |
ایسا ہی کوئی خواب ہمارا بھی کبھی تھا |
اب اگلے زمانے کے ملیں لوگ تو پوچھیں |
جو حال ہمارا ہے تمہارا بھی کبھی تھا |
ہر بزم میں ہم نے اسے افسردہ ہی دیکھا |
کہتے ہیں فرازؔ انجمن آرا بھی کبھی تھا |
بحر
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات