گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا |
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا |
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانے |
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا |
منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی |
ناداں ہی سہی ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا |
تھک کر یونہی پل بھر کے لئے آنکھ لگی تھی |
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا |
واعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبت |
فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا |
بحر
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات