تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا |
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا |
چھوڑا مہِ نخشب کی طرح دستِ قضا نے |
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا |
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے |
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا |
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم |
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا |
میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں |
یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا |
دریائے معاصی تُنک آبی سے ہوا خشک |
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا |
جاری تھی اسدؔ! داغِ جگر سے مری تحصیل |
آ تشکدہ جاگیرِ سَمَندر نہ ہوا تھا |
بحر
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات