آپ نے مَسَّنی الضُّرُّ کہا ہے تو سہی |
یہ بھی اے حضرتِ ایّوب! گِلا ہے تو سہی |
رنج طاقت سے سوا ہو تو نہ پیٹوں کیوں سر |
ذہن میں خوبئِ تسلیم و رضا ہے تو سہی |
ہے غنیمت کہ بہ اُمّید گزر جاۓ گی عُمر |
نہ ملے داد، مگر روزِ جزا ہے تو سہی |
دوست ہی کوئی نہیں ہے، جو کرے چارہ گری |
نہ سہی، لیک تمنّاۓ دوا ہے تو سہی |
غیر سے دیکھیے کیا خوب نباہی اُس نے |
نہ سہی ہم سے، پر اُس بُت میں وفا ہے تو سہی |
نقل کرتا ہوں اسے نامۂ اعمال میں مَیں |
کچھ نہ کچھ روزِ ازل تم نے لکھا ہے تو سہی |
کبھی آ جاۓ گی کیوں کرتے ہو جلدی غالبؔ |
شہرۂ تیزئِ شمشیرِ قضا ہے تو سہی |
بحر
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن سالم مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
||
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات