دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں |
یعنی ہمارے* جیب میں اک تار بھی نہیں |
دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے |
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں |
ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے |
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں |
بے عشق عُمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں |
طاقت بہ قدرِ لذّتِ آزار بھی نہیں |
شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش |
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں |
گنجائشِ عداوتِ اغیار اک طرف |
یاں دل میں ضعف سے ہوسِ یار بھی نہیں |
ڈر نالہ ہائے زار سے میرے، خُدا کو مان |
آخر نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں |
دل میں ہے یار کی صفِ مژگاں سے روکشی |
حالانکہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں |
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خُدا! |
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں |
دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بارہا |
دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں |
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات