عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
عمر ہر چند کہ ہے برق خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی
کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
بحر
رمل مسدس مخبون محذوف
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
رمل مسدس مخبون محذوف
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن

0
1267

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں