شبِ وصال میں مونس گیا ہے بَن تکیہ |
ہوا ہے موجبِ آرامِ جان و تن تکیہ |
خراج بادشہِ چیں سے کیوں نہ مانگوں آج؟ |
کہ بن گیا ہے خمِ جعدِ پُر شکن تکیہ |
بنا ہے تختۂ گل ہائے یاسمیں بستر |
ہوا ہے دستۂ نسرین و نسترن تکیہ |
فروغِ حسن سے روشن ہے خوابگاہ تمام |
جو رختِ خواب ہے پرویں، تو ہے پرن تکیہ |
مزا ملے کہو کیا خاک ساتھ سونے کا |
رکھے جو بیچ میں وہ شوخِ سیم تن تکیہ |
اگرچہ تھا یہ ارادہ مگر خدا کا شکر |
اٹھا سکا نہ نزاکت سے گلبدن تکیہ |
ہوا ہے کاٹ کے چادر کو ناگہاں غائب |
اگر چہ زانوئے نل رکھے دمن تکیہ |
بضربِ تیشہ وہ اس واسطے ہلاک ہوا |
کہ ضربِ تیشہ پہ رکھتا تھا کوہکن تکیہ |
یہ رات بھر کا ہے ہنگامہ صبح ہونے تک |
رکھو نہ شمع پر اے اہلِ انجمن تکیہ |
اگرچہ پھینک دیا تم نے دور سے لیکن |
اٹھائے کیوں کہ یہ رنجورِ خستہ تن تکیہ |
غش آ گیا جو پس از قتل میرے قاتل کو |
ہوئی ہے اس کو مری نعشِ بے کفن تکیہ |
شبِ فراق میں یہ حال ہے اذیّت کا |
کہ سانپ فرش ہے اور سانپ کا ہے من تکیہ |
روا رکھو نہ رکھو، تھا جو لفظ تکیہ کلام |
اب اس کو کہتے ہیں اہلِ سخن "سخن تکیہ" |
ہم اور تم فلکِ پیر جس کو کہتے ہیں |
فقیر غالبؔ مسکیں کا ہے کہن تکیہ |
بحر
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
||
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات