نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جاں کے لئے |
رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لئے |
بلا سے گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے |
رکھوں کچھ اپنی ہی مژگانِ خوں فشاں کے لئے |
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں رو شناسِ خلق اے خضر |
نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لئے |
رہا بلا میں بھی، میں مبتلائے آفتِ رشک |
بلائے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لئے |
فلک نہ دور رکھ اس سے مجھے، کہ میں ہی نہیں |
دراز دستیٔ قاتل کے امتحاں کے لئے |
مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر |
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے |
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری جو شامت آئے |
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے |
بہ قدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگ نائے غزل |
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے |
دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے |
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لئے |
زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا |
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لئے |
نصیرِ دولت و دیں اور معینِ ملت و ملک |
بنا ہے چرخِ بریں جس کے آستاں کے لئے |
زمانہ عہد میں اس کے ہے محوِ آرائش |
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے |
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے |
سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لئے |
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا |
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے |
بحر
مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
||
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات