وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار، نقشِ محبّت ہی کیوں نہ ہو
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو
پیدا ہوئی ہے، کہتے ہیں، ہر درد کی دوا
یوں ہو تو چارۂ غمِ الفت ہی کیوں نہ ہو
ڈالا نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ
اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو
ہے آدمی بجاۓ خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
ہنگامۂ زبونئِ ہمّت ہے، انفعال
حاصل نہ کیجے دہر سے، عبرت ہی کیوں نہ ہو
وارستگی بہانہِ بیگانگی نہیں
اپنے سے کر، نہ غیر سے، وحشت ہی کیوں نہ ہو
مٹتا ہے فوتِ فرصتِ ہستی کا غم کوئی؟
عمرِ عزیز صَرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو
اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو
بحر
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن

0
1217

اشعار کی تقطیع

تقطیع دکھائیں