دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں
یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
1982
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں
دی سادگی سے جان پڑوں کوہکن کے پاؤں
ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گیے پیر زن کے پاؤں
بھاگے تھے ہم بہت۔ سو، اسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پاؤں

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
534
کعبے میں جا رہا، تو نہ دو طعنہ، کیا کہیں
بھولا ہوں حقِّ صحبتِ اہلِ کُنِشت کو
طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسمِ ثواب سے
ٹیڑھا لگا ہے قط قلمِ سرنوشت کو

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
354
وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار، نقشِ محبّت ہی کیوں نہ ہو
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
975
واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
یعنی یہ میری آہ کی تاثیر سے نہ ہو
اپنے کو دیکھتا نہیں ذوقِ ستم کو دیکھ
آئینہ تاکہ دیدۂ نخچیر سے نہ ہو

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
218
بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو
کیا لطف ہو جو ابلقِ دوراں بھی رام ہو
تا گردشِ فلک سے یوں ہی صبح و شام ہو
ساقی کی چشمِ مست ہو اور دورِ جام ہو
بے تاب ہوں بلا سے، کن* آنکھوں سے دیکھ لیں
اے خوش نصیب! کاش قضا کا پیام ہو

مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن


0
244